ہم ہنگامہ خیز دور میں داخل ہورہے ہیں۔

گوانچا کے لئے انٹرویو

کیا آپ براہ کرم کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لئے روسی حکومت کے اقدامات کے بارے میں کچھ بتاسکتے ہیں؟ اس وقت روس کی صورتحال کیا ہے؟

باقی یورپی ممالک کی نسبتاً روس پر وبائی مرض کا حملہ قدرے کم ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ بہت اچھے تھے (یا ہیں)۔ دوسرے ممالک کی نسبت روس میں صورتحال ڈرامائی نہیں۔ مارچ کے آخرمیں ، روس نے کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کرنا شروع کردیں۔ اس کے بعد پوتن نے نرمی سے شہریوں کو مارچ کے آخر میں ایک ہفتے کے لئے گھر میں رہنے کی تجویز دی بغیر یہ بتائے کہ اس رضاکارانہ اقدام کی اصل حیثیت کیا ہے۔ وبائی مرض کی شدت کا احساس کرتے ہوۓ بعد میں مکمل لاک ڈاؤن کیا گیا۔ ابتدا میں حکومت کے اقدامات قدرے الجھن میں نظر آئے: ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پوتن اور دوسرے زمہ داران، کورونا وائرس کے حقیقی خطرے سے پوری طرح واقف نہیں تھے ، شاید شبہ تھا کہ اس وبا کے پیچھے مغربی ممالک کا کوئی(سیاسی یا معاشی) پوشیدہ ایجنڈا ہے۔ بہر حال ، ہچکچاہٹ سے ، حکومت نے چیلنج قبول کیا اور اب زیادہ تر علاقے مکمل طور پر لاک ڈاؤن میں ہیں۔

حکام نے اس مرض کے تدارک کے لیے معمولی طریقوں سے ایک سخت گیر اپروچ استعمال کی جن میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں پر سنگین جرمانے بھی شامل ہیں۔ کبھی کبھار یہ طریقہ کارگر ہوتا ہے ، لیکن کبھی یہ کارگر نہیں بھی ہوتا۔ ماسکو حکام نے متعدد سنگین غلطیاں کیں: بڑے پیمانے پر اجتماعات کی ممانعت کے باوجود ، انہوں نے میٹرو میں چیک پوائنٹس بناۓ جس سے زبردست ہجوم پیدا ہوا اور اس اپروچ سے خطرناک حد تک کرونا سے متاثر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔

"ایسا لگتا ہے کہ روسی حکومت کو اس وبا کے دوران معاشی صورتحال کو سنبھالا دینے کا کوئی اندازہ نہیں۔ روسی معیشت کا قدرتی وسائل کی فروخت پر انحصار ہے ، وبا کی وجہ سے بین الاقوامی تجارت کی بندش اور تیل کی قیمتوں میں کمی سے روسی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔"

اندرونی طور ابھی تک روس میں کسی ہنگامی حالت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ لوگ کا خیال ہے کہ حکام ذمہ داری قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ تاہم ، اس دوران ، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار تقریباً مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران صرف سرکاری ورکرز کے معاش کی کسی سطح تک ضمانت ہوتی ہے۔

لہذا ، انسانی زندگیوں کا نقصان تو قدرے کم ہے لیکن اس کے باوجود ، روس کورونا وائرس کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کا انتظام بالکل درست نہیں ہے لیکن ایسی صورتحال تقریبا تمام ممالک کو درپیش ہے۔ صرف چین کی صورتحال غیر معمولی طور پر مختلف ہے جہاں وبا کے ابتدا ہی میں اسکا کا رد عمل زیادہ فیصلہ کن ، موثر اور قابل اعتماد تھا۔

مغربی میڈیا اور سیاست دان طویل عرصے سے اس وبائی مرض کا الزام چین پر تھوپ رہے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ "چین نے وائرس پیدا کیا" ، "چین نے دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے ایک جعلی اموت کی تعداد بتائی" اور یہاں تک بھی کہا گیا کہ "چین کو وائرس سے نمٹنے کے لیے اپنی ناکامی کا معاوضہ ادا کرنا چاہئے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ مغرب کی طرف سے روس پہ بھی کچھ تنقیدیں ہو رہی ہیں جن کا کہنا ہے کہ "روس نے اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لئے وائرس کا استعمال کیا ہے۔" روس کے وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے 14 اپریل کو ان کے تمام دعوؤں کو یکسر مسترد کردیا۔

پوری دنیا میں الزام تراشی کو فروغ دینے کے لیے اس طرح کے تزویراتی مقاصد کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ افواہوں اور الزام تراشی کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ہمارے دونوں ملک ایک دوسرے کی کیسے حمایت جاری رکھ سکتے ہیں؟

عالمی وبا سے بہت سارے عجیب و غریب نتائج اخذ ہوۓ ہیں۔ متعدد جواب طلب سوالات ہیں ، اور واضح طور پر پوری دنیا میں مختلف طاقتیں اس بڑے وقوعے کو استعمال کرتے ہوۓ اپنے دشمنوں پر الزام تراشی کے زریعے عالمی نظام کے چہرے کو یکسر بدلنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

ایک طرف ، بہت سے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ بیماری مصنوعی ہے اور حیاتیاتی جنگ کے طور پر (حادثاتی یا ایک خاص مقصد کے لیے) اس کو لیک کیا گیا۔ واضح طور پر چین کے شہر ووہان میں ایک اعلیٰ پاۓ کی حیاتیاتی لیبارٹری ہے۔ امریکہ میں ، صدر ٹرمپ سمیت بہت سارے لوگ چین کو موردالزام ٹھہرانے کے مفروضے پر قائم ہیں جبکہ حقیقت ازقریب یہ ہے کہ ایک گلوبلسٹ گروپ (جیسے بل گیٹس ، زکربرجر ، جارج سوروس اور اسی طرح کے اور متعدد لوگ) اس مہلک وائرس کو پھیلانے کے منصوبے کے پیچھے کار فرما ہے۔ اس گلوبلسٹ گروپ کا کا عالمی ایجنڈا ویکسین کے ذریعے دنیا بھر کے انسانوں میں مائکروچپس متعارف کروانا ہے۔ متاثرہ افراد کو کنٹرول کرنے اور ان کی نگرانی کے لئے پہلے سے متعارف کرائے گئے نگرانی کے طریقہ کار کا مکمل اطلاق ہوچکا ہے۔ لوگوں کی شخصی آزادی اور ان کی پرائیویسی مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے اور یہاں تک کہ جو لوگ ابھی تک صحتمند ہیں وہ بھی کڑی نگرانی کی زد میں خوف محسوس کررہے ہیں۔ یہاں ایک سازشی تھیوری کے ذریعے چین کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ ہم اس طرح کے خرافات اور الزامات جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ایسے کوئی ثبوت ہیں ،ان پر صرف ہنس سکتے ہیں ، لیکن ایسے سازشی نظریات پر یقین - خاص کر گہرے بحرانوں کے لمحوں میں - آسانی سے قبول ہوجاتے ہیں اور حقیقی اقدامات کی اساس بن جاتے ہیں ، اور یہاں تک کہ جنگ کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

"چین کو مورد الزام ٹھہرانے کی دوسری وجہ صوبہ ہوبی کے شہر ووہان سے اس مہلک وبا کا پھیلاؤ ہے۔ اس الزام نے لبرل ازم اور انسانی حقوق کے تمام تر دباؤ کے باوجود مغربی معاشروں میں نسل پرستانہ جبلت کو بڑھاوا دیا ہے۔ اس صورتحال سے چین مخالف جذبات کو ہوا ملی ہے ، جسے مستقبل میں یقینی طور پر محسوس کیا جاۓگا۔ "

موجودہ صورتحال میں یہ بات عیاں ہے کہ ہر شخص ڈرامائی حالات کو اپنے نفع کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس وبائی مرض کے پس منظر میں اپنے جغرافیائی سیاست اور نظریاتی عالمی وژن کو فروغ دینے میں سرگرداں ہے۔

تاہم ، روس ، چین کو مورد الزام ٹھہرانے کے خلاف ہے ، اس بات سے (اگرچہ سرکاری طور پر نہیں) اتفاق کرتا ہے کہ یہ وائرس امریکہ میں حیاتیاتی جنگی تجربہ کے طور پر شروع ہوا۔ سرکاری طور پر ، روس اس وبائی وائرس سے متعلق چمگادڑ / پینگولن تھیوری کے قدرتی کردار کو تسلیم کرتا ہے ، لیکن روسی میڈیا میں کریملن کے قریبی ماہرین امریکہ کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر چینی حکام کے متنازعہ بیانات جن میں امریکہ پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام لگایا گیا کا حوالہ دیتے ہیں۔

"وبائی امراض سے متعلق ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے والی جعلی خبروں ، جھوٹ اور سازشی نظریات نے سچ کو نقصان پہنچایا ہے اور اب ہم سچ کو مکمل طور پر سمجھنے کا امکان نہیں رکھتے ۔ کورونا وائرس سے جڑی ہر چیز سرعت رفتاری سے متعصب ہوگئی ہے۔ ہمیں اب اس حقیقت کو قبول کرنا ہوگا اور اپنا ہی ورژن قائم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی جو گلوبلسٹ مخالف ہو اور دنیا پر ان کی اجارہ داری کے تسلط کے خلاف ہماری اپنی حکمت عملی کے عین مطابق ہو۔ اس لحاظ سے ، روس کے وزیرخارجہ لاوروف کی چین کے لیے حمایت اور امریکہ کے خلاف لگائے جانے والے الزامات سے بھی یہی معنی نکلتا ہے ۔ یہ حقیقت پسندی کا معاملہ ہے ، روس اور چین کے مابین جغرافیائی سیاسی ہم آہنگی اور یکجہتی یے، دونوں ممالک پہلے سے ہی کثیر قطبی دنیا کے وجود کے لیے سرگرم ہیں اور دنیا میں ابھرتے کثیر قطبی ورلڈ آرڈر کے دونوں اہم ستون سمجھے جاتے ہیں۔"

تازہ ترین خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ ڈبلیو ایچ او کی مالی معاونت معطل کرنے والا ہے ، اور اس بین الاقوامی تنظیم کو دھمکا رہا ہے جو وبائی مرض کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ چین سے متعلق اس تنظیم کے مثبت رویے کی وجہ سے یہ امریکی ردعمل آیا۔ کیا ایسا نہیں لگتا کہ وبائی امراض کے دوران کیے جانے والے اعلانات اور اقدامات نے اس حقیقت کو آشکار کردیا ہے کہ نام نہاد “ذمہ دار سپر پاور” اور خود کو "عالمی سماج کا رہنما" سمجھنے والے امریکہ کا ایسا اب کوئی وجود نہیں رہا۔ آخر انہوں نے چین کو قربانی کا بکرا کیوں بنایا؟

میں نے اس کی وضاحت اپنے سابقہ ​​جوابات میں کچھ حد تک کردی ہے۔ یہاں میں صرف اس بات کا اضافہ کررہا ہوں کہ یک قطبی دنیا اور امریکی عالمی تسلط اب ماضی کی بات ہے۔ ٹرمپ نئے تناظر میں اپنے ملک کے لئے موزوں جگہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں چین کو امریکہ کا مرکزی حریف سمجھا جارہا ہے۔ مزید یہ کہ ، ٹرمپ کے سازشی نظریہ کے مطابق، ڈبلیو ایچ او گلوبلسٹوں کا ایک آلہ ہے جیسے اوباما ، ہلیری کلنٹن ، بل گیٹس ، جارج سوروس اور سابقہ رہنما – جو گلوبلسٹوں کے عالمی تسلط کو پروان چڑھا رہے تھے ۔ ٹرمپ کے خیال میں ، گلوبلسٹوں کے ایجنڈے کو فروغ دینے میں چین کردار ادا کررہا ہے۔ حقیقت کے برعکس وہ اپنے تمام نظریاتی اور جغرافیائی سیاسی دشمنوں کو متحد سمجھتاہے۔

امریکہ کو اب کوئی بھی "زمہ دار سپر پاور " نہیں سمجھتا۔ امریکہ اب خود کو ایک مفاد پرست قومیت پسندی کے طور پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور اب دنیا کے لئے امریکہ کی پیروی کرنے میں کوئی تمثیل نہیں۔ ہم نے 1900-2020 کے روایتی یک قطبی نظام کی متروک تصویر پیش کرتے ہوئے ، ٹرمپ اور ان کے حامیوں کے عالمی وژن پر اتنی توجہ نہیں دی۔ ٹرمپ کو ووٹ دینے والے امریکیوں نے پہلے سے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ "بین الاقوامی معاشرے کے قائد" کی حیثیت سے امریکہ کا کردار ختم ہو چکا ہے: "سب سے پہلے امریکہ " کے معنی ہی یہ ہیں کسی اور کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔" وبائی مرض نے نہایت واضح اور شفافیت کے ساتھ یہ انکشاف کیا ہے کہ پچھلے چند سالوں میں اکثریت نے دنیا کو بہت بڑی تبدیلی کے تجربے سے گزارا ہے۔

"چین یقینی طور پر قربانی کا بکرا ہے اور کورونا وائرس سے بھی بہت پہلے امریکی حکمت عملی نے اسے قربانی کا بکرا بنا دیا تھا… تاہم ، اب اس وبا کی وجہ سے ان کے اس خیال کو کامل تقویت مل چکی ہے۔ "

بین الاقوامی امور کے بہت سارے ماہرین کا خیال ہے کہ 2020 میں کورونا وائرس وبائی مرض عالمی سیاست کے لئے ایک واٹرشیڈ لمحہ بن جائے گا۔ آپ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وبا یورپی ممالک اور امریکہ کے یک قطبی ساخت کے لیے سزائے موت ہے؟

میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ کورونا وائرس ایک حقیقی "واقعہ" یا ایریگنیسن ہیڈججیرئین جیسا احساس ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جدید تاریخ کے ایک اہم موڑ پہ ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اب ہم عالمگیریت اور مغربی مرکزیت پسند لبرل نظریہ کی اجارہ داری کے ناقابل واپسی خاتمے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مکمل طور پر بند معاشروں میں گزرے وقت کے تجربے نے عالمی سیاست کو ہمیشہ کے لئے بدل دیا ہے۔ مشرقی بند معاشروں کی قابلیت، تجربہ اور صلاحیت مغرب کے لئے مہلک ثابت ہوئی ہے۔ جب دنیا اصلی (یا تصور شدہ لیکن حقیقی) خطرے سے دوچار ہوئی تو تقریباً تمام ممالک نے فوری اور فطری طور پر بندش کا انتخاب کیا۔ اگر دنیا میں واقعی عالمیگریت ہوتی تو اس کے برعکس رد عمل ہوتا ، دنیا یوں بندش کو تسلیم نہ کرتی۔ وبائی مرض کے خاتمے کے بعد ، اوپن سوسائٹٹز کے لئے اب کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ ہم پہلے ہی بند معاشرے کے عہد میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کلاسیکل نیشنلزم واپس آۓ گی ہا ریاستی تجارت بند ہوجاۓ گی جس کا تصور فچتے Fichte نے کیا تھا ، لیکن بہت سارے معاملات میں شاید ایسا ہی ہوگا۔ بظاہر ٹرمپ کی پوزیشن اسی سمت بڑھتی جارہی ہے۔ ہم علاقائی تعاون کے تسلسل کا تصور بالکل ایک نئے فریم کے اندر رہتے ہوۓ کرسکتے ہیں لیکن اب اس کی اصل شکل ریاستوں کی خود انحصاری ، خودداری اور خود کفالت پر ہوگی۔

ساختی مسائل کو بالکل نئے تناظر میں حل کیا جائے گا ، اور اس میں مطلوبہ تبدیلیاں اتنی بڑی ہونے والی ہیں کہ اس سے خاص طور پر یوروپ میں پیدا ہونے والے مسائل مکمل طور پر خانہ جنگی جیسے ہونگے۔

"ہم جانتے ہیں کہ دنیا کے اختتام میں رہ رہے ہیں. یہ اس طرح دنیا کا خاتمہ نہیں کہ سب کچھ ختم ہوجاۓ گا ، بلکہ یہ یقینی طور پر مغرب کے زیر سایہ یک قطبی عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہے۔ روس میں ہم نے سوویت یونین کے خاتمے کے دوران کچھ اس طرح کا تجربہ کیا ہے۔ لیکن اس وقت ایک تیار کردہ "حل" شامل تھا: سوشلسٹ نظام (جس کو نااہل سمجھا گیا) ختم ہوکر سرمایہ دارانہ نظام مسلط ہوا ۔ ایک دنیا - سوویت دنیا کا خاتمہ تھا۔ ایک قطب یعنی سویت یونین کا انہدام ہوا ، اب گرنے کے لئے دوسرے قطب کی باری ہے - یعنی عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ. اس صورتحال میں ، ہم ایک خلا کا سامنا کر رہے ہیں۔ شاید چین نظریاتی سطح پر اس کے لئے بہتر طور پر تیار ہے۔چین کو سوشلسٹ نظام اور سرمایہ داری مخالف نظریہ کے تحفظ کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کے سرکردہ کردار کا بھی تحفظ کرنا ہوگا، لیکن تبدیلیاں اتنی بڑی ہوں گی کہ امکان ہے کہ چین سے نئی نظریاتی کوششوں کا مطالبہ بھی کیا جائے۔ . حالیہ برسوں کو مدنظر رکھتے ہوۓ مجھے خوف ہے ہے کہ چین کو متناسب حکمت عملی کے بارے میں مفصل اصلاحات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہوگی۔"

یک قطبیت یقینی طور پر مر چکی ہے۔ اب کثیرقطبیت کا لمحہ ہے۔ لیکن کوئی بھی یقینی طور پر نہیں جانتا کہ اس کا کیا ٹھوس مطلب ہے - یہاں تک کہ میں بھی نہیں اور وہ شخص بھی نہیں جس نے "کثیر قطبی دنیا کے نظریہ" پر کتاب لکھی۔ جب مستقبل آتا ہے تو یہ تمام پیش گوئیوں سے ہمیشہ مختلف ہوتا ہے - یہاں تک کہ ان کے لیے بھی جو ہمشیہ درست ثابت ہوتے ہیں۔

کیا آپ وبائی بیماری کے بعد دنیا کے بارے میں پرامید ہیں یا مایوس؟ کیا آپ کے خیال میں طاقت اور اثرورسوخ کھونے سے امریکہ اپنا تسلط برقرار رکھنے کےلیے زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کرے گا؟

میں نہ تو پر امید ہوں ، نہ ہی مایوس ، بلکہ حقیقت پسند ہوں۔ گلوبلائزیشن (عالمگیریت) اور یک قطبیت کا خاتمہ نیک شگون ہے کیونکہ اس خاتمے سے نئے اور بہت زیادہ متوازن عالمی نظام کے قیام کا موقع ملتا ہے، جہاں مختلف تہذیبیں مغرب کی عالمی تسلط سے اپنی آزادی و خود مختاری کو یقینی بنائیں گی ۔ لہذا یک قطبی دنیا کا خاتمہ دراصل مغربی استعمار کا خاتمہ ہے۔ یہ اچھی خبر ہے۔ تاہم ، ایک بری خبر بھی ہے۔ مغرب ایک مایوس کن حالت میں ہے کیونکہ عالمی استعماری سلطنت کا خاتمہ ہو رہا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یقینی طور پر اپنے عالمی تسلط کے تحفظ کے لیے فوجی ، نظریاتی ، سیاسی اور معاشی - ہماقسمی حربہ استعمال کریں گے۔ ہم جنگ کو خارج از امکان قرار نہیں دے سکتے۔ جب امریکہ اور یوروپ سمجھ لیں گے کہ وہ اب انسانیت کے استحصال کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال نہیں کرسکتے تو وہ یقیناً جنگ کریں گے۔

ہم ہنگامہ خیز زون میں داخل ہورہے ہیں۔ کسی بھی چیز کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مثال کے طور پر گریٹر یوریشیا پروجیکٹ کے لیے روس اور چین ان تبدیلیوں کے دوران بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں اور ایک ٹھوس اور موثر متوازن کثیر قطبی دنیا کو قائم کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے بہت زیادہ داؤ پیچ کی ضرورت ہے… کیونکہ ہر ایک کو خطرہ میں ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے جس یک قطبیت کا خاتمہ ہو رہا ہے اس کا موازنہ بابل کے زوال سے کیا جاسکتا ہے۔ یک قطبیت کے تسلط کے خاتمے سے بڑی آسانی سے انتشار پھیل سکتا ہے ، بربریت ، ہر طرح کے ہنگاموں اور کشمکش میں سب گھر سکتے ہیں۔ ہمیں مشکل اور مستقل مزاج مستقبل کی تلاش کرتے ہوئے اپنی شناخت اور اپنی تہذیبی خودمختاری کے دفاع کو یقینی بنانا ہے۔

آخر میں ، چین اور روس کو اب اپنا راستہ اختیار کرنا چاہیے.۔ اب ہم دنیا کے موضوع ہیں ، دوسروں کے لکھے ہوئے ڈراموں میں صرف معمولی کردار ادا کرنے کا وقت اب گزر چکا ہے۔ مستقبل میں بہت سی چیزوں کا انحصار اب اس بات پر ہوگا کہ روس اور چین اس بالکل نئی اور غیر معمولی صورتحال میں کس طرح کام کرتے ہیں۔ ہمیں پوری طرح سے احساس کرنا چاہئے: چین اور روس نئے عالمی نظام کے دو ستون ہیں اور انسانیت کی منزل ہمارے باہمی افہام و تفہیم ، مدد اور تعاون پر منحصر ہے۔