“حیاتِ محض” کی تفہیم

ولندیزی فلسفی اسپینوزا (Spinoza) کا سب سے اہم تصور “بقاء survival” ہے۔ اسکے نزدیک یہ زندگی اور دورانیہ (duration) سے وابستہ ہے۔ یعنی وہ اسے ایک مخصوص مدت کے لئے اپنی شناخت کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت کے طورپر دیکھتے ہیں جس میں قابلیت، طاقت کے مساوی چیز ہے۔ فرانسیسی فلسفی ڈیلوز (Deleuze)، جرمن فلسفی نطشے کے تصور (force = life) پر غور کرتے ہوئے کہتا ہے کہ قوت، زندگی اور بقا کیلئے پائی جانے والی استقامت کے مساوی ہے اور اس میں آخری چیز ارادہ (will) ہے۔ بقا یعنی زندہ رہنے کی خواہش اور ارادہ ایک طرز زندگی ہے جس کا صرف ایک نکاتی مقصد باقی رہنا، زندگی برائے زندگی اور طاقت برائے طاقت ہے۔

اطالوی فلسفی اگمبین (Agamben)، نازی پارٹی کے سیاسی مفکر شمٹ (Schmitt) کےتصور ‘حالت ایمرجنسی State of emergency’ کا تجزیہ کرتے ہوئے ‘ حیاتِ محض’ کے تصور کی طرف آتا ہے۔ یہ وہ شے ہے جس پر مطلق اختیار اوراقتدار کا تسلط اس مطلق طاقت اور ارادے سے قائم ہوتا ہے جو حاکمیت اور خودمختاری کی آخری حد کو پہنچ چکا ہو۔ اگامبین حراستی کیمپ میں رہنے والوں کو اسکی ایک عمدہ مثال کے طورپر دیکھتے ہیں۔ وہاں ہر ایک کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے اوروہ ہے ‘بقا’۔۔۔ یہی زندگی محض ہے۔۔۔ بغیر عمودی عزائم کےجو خودمختاری کے کرسٹل سے مکمل طورپر رک جاتے ہیں۔ زندگی برائے زندگی، جینے کیلئے جینا، اسی مقصد کے حصول کیلئے ختم ہوجانا۔۔۔ کیا یہی سب کچھ ہے؟۔۔ ہاں۔

لیکن اس میں دلچسپی کی کیا بات ہے؟ ایک حراستی کیمپ میں برہنہ زندگی (حیاتِ محض)، ایک مطلق العنان معاشرے میں قدرے سہولیات کے ساتھ، کسی بھی معاشرے میں خالص مدت (pure duration) ۔ لیکن آخر کیا ہونا چاہیے؟ جب زندگی بے حجاب نہیں ہوتی تو اس نےاقدار کے قیمتی ماسک اور ملبوسات زیب تن کئے ہوتے ہیں۔ میں ایسا یا ویسا بنوں گا۔ ۔ ۔ میں اس کیلئے یا اس کیلئے زندہ ہوں۔ ۔ ۔ میں ایسا یا ویسا کروں گا۔ ۔ ۔ لیکن جب ہمیں مائوتھاسن (Mauthausen) حراستی کیمپ، ابوغریب جیل، گوانتاناموبے یا گلگ (GULAG) جیل میں رکھا جاتا ہے تو اقدار کاخاتمہ کر دیا جاتا ہے، تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں، افراد کو ادھیڑ دیا جاتا ہے۔ اب کوئی چیز ایسی نہیں ہوتی جو باقی بچی ہو سوائے حیاتِ محض کے۔۔۔ جس کیلئے چوبیس گھنٹے یومیہ یہ امکان پایا جاتا ہے کہ وہ کسی لمحے بھی ختم کر دی جائے۔ اس طرح موت کے منہ میں رہنےوالا فرد انسان نہیں رہتا، اس صورتحال میں شخص تو باقی رہتا ہی نہیں صرف حیاتِ محض باقی ہوتی ہے اور اسے ایساانسان نہیں کہا جا سکتا جو بقا چاہتا ہے۔

اس صورتحال میں زندگی باقی رہنے کے طریقے خود تلاش کرتی ہے۔ اب یہ شخص فیصلے نہیں کرتا، کچھ بھی اس پر منحصر نہیں ہوتا۔ بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسے موقعے پر اگر آپ کو بقا کیلئے کوئی تبدیلی لانا پڑے تو کیا ہوگا؟ اب آپ پہلے والےانسان نہیں رہیں گے بلکہ ایک مختلف شخص ہونگے۔ کلاسیکی شناخت کے مطابق یہ عمل اپنی موت کے مترادف ہوگا۔۔ موت سے مراد یہ ہے ایک عام فرد کی طرح زندہ نہ رہ پانا۔ لیکن “حیاتِ محض” کا معاملہ یہ نہیں۔ اس کے لئے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ کون زندہ رہتا ہے بلکہ یہاں مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ زندگی نے باقی رہنا ہے یا نہیں۔ اب اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ یہ باقی بچنے والا کون ہوگا اور وہ کیسے زندہ رہے گا؟ اگر زندگی کا جوہر بقا ہے تو پھر اس موضوع یعنی انسان کی مابعدالطبیعی حیثیت صرف زندگی کی نہ ختم ہونے والی حکمت عملیوں میں سے ایک ہے۔

بقا کی خاطر زندگی محض، انسانی تشخص کو چھوڑ دے گی اوراپنے آپ کو ایک سانپ کی طرح آگے رینگنے کے قابل بنائے گی۔ یہی وجہ ہے اسپینوزا مابعد جدیدیت پسندوں کیلئے بہت قیمتی اساس ہے۔ اسکی فطرت پرست مابعدالطبیعات جدیدیت کو نہیں کھولتی بلکہ وہ اسے بند کر دیتی ہے کیونکہ یہ پہلے سے ہی جان بوجھ کر بعد ازانسان تغیرات (post human mutations) کے افق کاتعین کرتی ہے۔

نظریہ ارتقاء اس زندگی محض کا نظریہ ہے۔ موافقت (adaptation)، قدرتی انتخاب (natural selection)، انواع کے تغیرات (species mutation) حرکیات کی مثالیں ہیں۔ محض بچائو کی خاطر یا اضافی سکون کے حصول کیلئے مچھلی، مچھلی رہنے کے عمل کو ترک کرنے کیلئے تیار ہوتی ہے بلکہ وہ ساحل پر رینگنے کی خواہش میں چھپکلی بن جاتی ہے۔ پرندہ ہوا میں رہنے کے بجائے پانی کی تہہ میں رہنا پسند کرتا ہے اور آکٹوپس بن جاتا ہے۔ بندر، اوزار استعمال کرنے، ہنسنے اورخطرات موہ لینے کا انتخاب کرکے انسان بن جاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ یہ زندگی محض کی صوابدید ہے۔ یہ ایک اکیلے دورانیے کی منطق ہے۔

بقا سے زیادہ اور کوئی غیر انسانی (inhuman) چیز نہیں۔ جیسے ہی ہم اس دلیل کی طرف رجوع کرتے ہیں ہم وہ نہیں رہتے جو پہلے ہوتے ہیں۔ ہم اب انسان نہیں رہتے۔۔۔ فوری طورپر ہماری انسانیت غائب ہوجاتی ہے اور ہم صرف حیاتِ محض کے حامل ہوتے ہیں۔۔۔ ایک حقیقی شخص میں، حراستی کیمپ کی انتہائی نازک صورتحال میں بھی زندگی اور موت کے درمیان انتخاب کرنے کی اہلیت ہوتی ہے۔۔۔ بطور فرد اپنی زندگی اور موت۔ حیاتِ محض نے اپنا انتخاب پہلے ہی کر رکھا ہوتا ہے یعنی جینے کی خاطر جینا۔۔۔ کسی بھی قیمت پر۔ زندہ رہنے کیلئے اچھے طریقے سے زندہ رہنا ضروری ہے۔۔۔ لیکن محض زندگی کا تسلسل۔۔ وہ کسی بھی صورت اور کسی بھی شکل میں ہو۔۔۔ زندہ رہنے کی واحد شرط ہے۔

کرونا وبا کے دوران طبی والیکٹرانک نگرانی اور مکمل پولیس کنٹرول میں اسکی ویکسینیشن۔۔۔ ہماری نجی زندگی کی تمام معلومات، ڈیٹا مراکز میں ذخیرہ کرنے کے ساتھ ہم “حیاتِ محض” کی شفاف جیل میں داخل ہو رہے ہیں) مائیکل فوکو اور جرمی بینتھم کی کنواں نما جیل جہاں جیلر قیدی کی ایک ایک حرکت کا مشاہدہ کر سکتا ہے)۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ابھی۔۔۔ جیسا کہ بنیاد پرستی کی شدید صورتحال میں ہوتا ہے۔۔۔ ہمارےپاس انتخاب اور مرضی کا آپشن باقی ہے۔ ۔ ہم ابھی کچھ نہ کچھ یا کسی نہ کسی حد تک انسان ہیں۔

ایک بار جب ہم ‘بقا’ کے مسئلے سے دوچار ہوجائیں گے تو پھر ہماری انسانیت ختم ہو جائے گی۔ صرف اس لئے نہیں کہ کوئی ہم پر حکمرانی کرے گا۔ ہم پر تو ہمیشہ ہی کسی نہ کسی کی حکومت ہوتی ہے، کوئی ہمیں حکم دیتا ہے، کوئی ہمیں ذلیل کرتا ہے یہاں تک کہ اسکی عظمت، طاقت اور برتری کی سادہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ہم زندہ ہوں اور زندگی کی رمق باقی ہو تو ہم اپنےوجود، شناخت، تشخص اور انسانیت کی حفاظت کیلئے لڑ سکتے ہیں۔ ہر جدوجہد ایک خطرہ ہوتی ہے اور زندہ رہنے کا مطلب خطرہ موہ لینا ہے۔ انسان ہونا ایک خوفناک خطرہ ہے۔ حیاتِ محض کا انتخاب کرکے ہم اس تنائو سے خلاصی حاصل کرتے ہیں۔  (ترجمہ وحید مراد)

(پروفیسر الیگزنڈر ڈوگن (Professor Aleksandar Dugin) روس کے معاشی و سیاسی تجزیہ کار، تاریخ، فلسفہ اور فوجی حکمت عملی کے ماہر ہیں۔ لبرل ازم کا ماضی، حال اور مستقبل انکی دلچسپی کا خاص موضوع ہے۔ وہ روس میں اہم سیاسی و فوجی شخصیات کے مشیر رہ چکےہیں اور’ صدر پیوٹن کا دماغ’ کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ امریکی مقتدر حلقوں اورتھنک ٹینکس کا خیال ہے کہ امریکہ کے پچھلے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کی حکمت عملی پروفیسر ڈوگن نے تیار کی تھی اس لئے انہیں دنیا کا خطرناک ترین فلسفی و پولیٹیکل سائنسٹسٹ قراردیا جاتا ہے۔ وہ تیس سے زائد کتب  کے مصنف ہیں جن میں ‘جیو پالیٹکس کی فائونڈیشن’ اور ‘چوتھی سیاسی تھیوری’ زیادہ مشہور ہیں۔)