قطب شمالی کے وسائل: گرین لینڈ میں امریکی عسکریت پسندی

قطب شمالی کے امور سے متعلق رابطہ کاری کے لئے قائم کی گئی آرکٹک کونسل میں ان دنوں قطب شمالی کے وسائل موضوع گفتگو بن چکے ہیں۔ دنیا کے تین طاقتور ترین ممالک روس چین اور امریکہ نے اقتصادی خوشحالی کے پیش نظر قدرتی وسائل اور تجارتی راستوں کے حصول کے لیے اس پر نظریں جما رکھی ہیں۔ گرین لینڈ جوکہ ڈنمارک کی بادشاہت کا حصہ ہے ان دنوں دوبارہ توجہ حاصل کر چکا ہے کیونکہ امریکہ اس جزیرے میں بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری کرکے خطے میں اپنی برتری کو تقویت دینے کا خواہاں ہے۔

سابق سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور موجودہ سیکریٹری خارجہ، مائیک پمپیو نے 9 مئی کو گرین لینڈ کا دورہ کرنا تھا تاکہ قطب شمالی کے سوال پر ڈنمارک اور امریکہ کے درمیان مشترکہ مفادات پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ اگرچہ انہوں نے اس دورے کو منسوخ کردیا ہے لیکن اس منسوخی کے پیچھے وجوہات کو دیکھناضروری ہے۔

پمپیو یورپ کے دورے پر تھے جس کا آغاز سات مئی کو فن لینڈ میں آرکٹک کونسل سے ہوا۔ اجلاس میں اس نے روس اور چین کو خوب آڑے ہاتھوں لیا جو خطے میں اپنے قومی مفادات کا تحفظ کررہے ہیںاس نے قطب شمالی میں ان کی سرگرمیوں کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔ روس شمالی بحیرہ کے راستے کے ساتھ ساتھ اپنے قطب شمالی کے علاقے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اگلے سال اقوام متحدہ کی جانب سے قطب شمالی پر روس کے دعوے کو بھی تسلیم کیا جائے گا جس سے روس کا قطب شمالی کاعلاقہ مزید بڑھتے ہوئے قطب کے مرکز تک پہنچ جائےگا۔ چین کی قطب شمالی میں جزوی موجودگی جزیرہ سولبارڈ  Svalbard میں تحقیقاتی سٹیشن کے ساتھ ساتھ خطے میں روسی مائع گیس کے پروگراموں میں سرمایہ کاری کی وجہ سے ہے۔ چین نے 2018 میں "پولر سلک روڈ " قائم کرنے کے منصوبے کا بھی انکشاف کیا جس کا مقصد قطب شمالی تجارتی راہداری کو روس کے شمالی بحیرہ کے راستے سے منسلک کرنا ہے۔

قطب شمالی میں روس اور چین کے جغرافیائی معاشی تعاون کے علاوہ پمپئو نے کہا ہے کہ" پینٹاگون نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا ہے کہ قطب شمالی میں چین اپنے  سویلین تحقیقاتی مرکز کو اپنی فوجی طاقت میں اضافے کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور اس خطے میں جوہری حملوں کو روکنے کے لئے ممکنہ طور پر چین اپنی آبدوزوں کو بھی تعینات کر سکتا ہے۔ ہمیں چین کی ان سرگرمیوں کو قریب سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور دوسری قوموں کو بھی چین کی ایسی سرگرمیوں سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ چین کا جارحانہ رویہ ہی قطب شمالی میں چین کے عزائم سے آگاہ کرے گا"۔ یہ قطب شمالی میں ممکنہ فوجی اسٹریٹجک صلاحیتوں کے بارے میں امریکی نقط نظر  ہے جو ہمیں گرین لینڈ میں  امریکہ کی مستقبل کی منصوبہ بندی سے متعلق آگاہی دیتا ہے۔

چین کی جانب سے جزیرے کے متعدد ہوائی اڈوں اور ایک متروک شدہ فوجی اڈے میں سرمایہ کاری کی کوششوں کے بعد پمپیو نے گرین لینڈ کا دورہ منسوخ کیا۔ امریکہ کا مقصد ہے کہ چین کی پیشکش کو ختم کیا جائے اور موثر طریقے سے چین کو اس خطے میں قدم جمانے سے روکا جائے اور گرین لینڈ کے عسکری شعبے پر امریکی کنٹرول حاصل کرنے کیلئے فوجی مقاصد میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا دروازہ کھولا جائے۔امریکی محکمہ خارجہ نے اس اقدام کے لیے گرین لینڈ میں مستقل امریکی سفارتی موجودگی کو بحال کردیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گرین لینڈ میں انیس سو تینتالیس سے تھول ایئر بیس Thule Air Baseکی صورت میں امریکی فوجی تنصیب موجود ہے۔

امریکہ اور نیٹو سے وفاداری کی وجہ سے ڈنمارک کی حکومت نے امریکہ کی اس عسکریت پسندی کا خیرمقدم کیا ہے۔ ڈنمارک کے وزیر خارجہ اینڈرس سمیلسن پہلے سے ہی کہ چکے ہیں کہ: "میں بہت خوش ہوں کہ پمپیو کا گرین لینڈ کا یہ پہلا دورہ عندیہ دیتا ہے کہ امریکہ قطب شمالی کے معاملے پر ڈنمارک سے تعاون کو وسعت دینے کا خواہش مند ہے امریکہ ہمارا عظیم اور بہت اہم اتحادی ہے اور ہمارے بہت مضبوط مشترکہ مفادات ہیں اور میں سوچتا ہوں کہ مستقبل قریب میں ہم گرین لینڈ میں امریکہ کے وسیع پیمانے پر ملوث ہونے کو دیکھیں گے۔ یہ ڈنمارک اور گرین لینڈ دونوں کے لیے بہت مثبت ہے۔ "اس وجہ سے قطب شمالی میں ڈنمارک کے مفادات صرف امریکی خواہشات پر منحصر ہیں۔ ایک زبردست حکمت عملی کے تحت چین اور روس کو شامل کرکے وسیع اتحاد قائم کرنا ہوگا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ امریکہ کی صفر رقم کھیل Zero-Sum game  کی ذہنیت کے باعث خطے کے متحرک کھلاڑیوں کے درمیان کوئی تنازعہ جنم نہ لے سکے۔

ہرسال قطب شمالی کے مراکز کی دوڑ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتی ہے جیسا کہ ہر آنے والے سال میں مختلف ممالک کی جانب سے خطے میں دلچسپی ظاہر کی جاتی ہے قدرتی وسائل اور تجارتی راہداریوں کا سفارتی حل دیا جاتا ہے۔وہاں پر مسلسل ترقی کی پیروی کرنا بھی دلچسپی کا باعث ہوگا کیونکہ امریکی سلطنت American Empire کی جانب سے روس اور چین( جو سرد جنگ کے بعد قائم ہونے والی یک قطبی دنیا کو ہراول دستے میں شامل ہوکر توڑ رہے ہیں ) کی مذمت اور پمپیو کے الزامات نے اس خطے میں بحران کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے۔ قطب شمالی کا سوال کیا ہوگا اور اس کے کیا نتائج برآمد ہونگے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ کہیں سرد شمال کے مستقبل کے سفارتی جھگڑے کسی بڑے گرم تنازعہ کی شکل اختیار نہ کر جائیں۔