Soçi’de yapılan son görüşmeye dair arka plan bilgilerine vakıf olduğunu aktaran Dugin “O gün Erdoğan ve Putin dünya dengeleri açısından hangi tarafta yer alacaklarını konuştu ve aldıkları kararı paylaştı. Kürt haritasından Kırım’a, Afganistan’dan Libya’ya, Kafkaslardan Suriye’ye tüm alanlara ilişkin hayati konularda kendi kırmızı çizgilerini çizdi. Başta İdlib olmak üzere birçok konuda uzlaştıklarını söyleyebilirim. Ancak bu tarihî buluşmada konuşulanların önemli bir kısmı sır olarak kalacak. Biz sadece sahada yansımalarını göreceğiz’’ dedi. Putin’in dış politikasını belirleyen isimlerden Aleksandr Dugin, ABD’nin Suriye’den çekileceğini ve bunun kademeli olarak gerçekleşeceğini anlattı. Amerika’nın çekilmesi ile tüm meselelerin hallolmayacağı görüşünü dile getiren Dugin “ABD çekilse bile kriz üretmeye devam edecek. Bu noktada tek belirleyici unsur Rusya, Türkiye ve İran’ın tutumu olacak” diye konuştu.
آج ہم نہ صرف عالمی طاقت کے توازن میں جغرافیائی سیاست کی ( یک قطبیت سے کثیر قطبیت کی طرف) منتقلی بلکہ گہری نظریاتی تبدیلیوں کی بھی معاونت کررہے ہیں۔ واضح طور پر مشرق وسطیٰ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف امریکا، اسرائیل اور یورپی یونین کا ابھی تک کتنا اہم کردار ہے۔ اور دوسری طرف چین اور روس کی خطے میں موجودگی کس طریقے سے حالات میں تبدیلیاں لارہی ہے۔ اور کیسے مختلف اسلامی ممالک اور اسلام میں مختلف رجحانات ایک دوسرے کے حلیف یا حریف ہیں۔ پس اس لیے جیو پالیٹکس کے پیچھے نظریاتی اور بسااوقات مزہبی سمتیں کار فرما ہیں اور ہم مزید قومی ریاستوں کی مقابلہ بازی یا پھر مشرق و مغرب کی نظریاتی مخالفت سے مسائل کو کم نہیں کرسکتے۔ ہمیں نئے حربوں کی ضرورت ہے جو ہمیں جغرافیائی سیاست کے نقشے پر نظریاتی بنیادوں اور منصبوں کا مکمل ادارک فراہم کریں۔ ہمیں بلاشبہ دنیاوی خلا کی نئی قسم کی نقشہ جاتی حد بندی کی ضرورت ہے۔ بالخصوص مشرق وسطیٰ میں جہاں اہم رجحانات کی اب ازسرنو تعریف کی گئی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے 16 اپریل کو ایک آرٹیکل لکھا جس کا عنوان تھا " سٹیو بینن جیسے انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست روسی نظریات سے کیوں متاثر ہیں اور کس طور سے اس نے اپنے مقصد کے لیے قرون وسطیٰ کے تصورات سے تاریخ کو مسخ کیا ہے" آرٹیکل کے مصنف برینڈن ڈبلیو ہاک اسے مکمل طور پر میرے نام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے افکار نے امریکی قدامت پرستوں اور انتہائی دائیں بازو کے حلقے بشمول معتبر نظریاتی منحرف سٹیو بینن اور خود ٹرمپ کو کیسے متاثر کیا۔
کیونکہ میرے ہی حقیقی خیالات کو مکمل طور پر مسخ کرکے کے انتہائی نچلے درجے کی بحث اور بڑے پیمانے پر جھوٹ اور گالم گلوچ کی گئی۔ میں نے پہلے سوچا کہ اس حملے پر خاموشی اختیار کی جائے جیسا کہ میں عام طور پر اس طرح کے معاملات پر خاموش ہو جایا کرتا ہوں. یہ ایک خالص لبرل مطلق العنانیت کا پراپیگنڈہ ہے جو حقیقت سے دور ایک خیالاتی جنگ ہے۔