پوٹن کی یہ صدارتی مدت انتہائی اہم ہے۔ یہ محض عام انتخابات نہیں تھے بلکہ جدید روس کی تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ ہے۔ پیوٹن اپنے کیریئر میں روس کی سربراہی میں اہم تاریخ ساز موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔ روسی فیڈریشن کا قیام 90 کی دہائی کے اوائل میں مشرقی یورپی کی تقلید کے طور پر کیا گیا جس کا
اس صورت حال میں صرف یہ اہم نہیں ہے کہ امریکی بھاگ گئے ہیں بلکہ اس بات کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے کہ وہ کس انداز سےبھاگے ہیں- امریکیوں نے اپنا سازوسامان چھوڑنے کے علاوہ اپنے وفادار ساتھیوں (جو کہ پکے ہوئےانگوروں کی طرح طیاروں سے گررہے تھے)کو بھی چھوڑ دیا۔
ولندیزی فلسفی اسپینوزا (Spinoza) کا سب سے اہم تصور “بقاء survival” ہے۔ اسکے نزدیک یہ زندگی اور دورانیہ (duration) سے وابستہ ہے۔ یعنی وہ اسے ایک مخصوص مدت کے لئے اپنی شناخت کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت کے طورپر دیکھتے ہیں جس میں قابلیت، طاقت کے مساوی چیز ہے۔ فرانسیسی فلسفی ڈیلوز (Deleuze)، جرمن فلسفی نطشے کے تصور (force = life) پر غور کرتے ہوئے کہتا ہے کہ قوت، زندگی اور بقا کیلئے پائی جانے والی استقامت کے مساوی ہے اور اس میں آخری چیز ارادہ (will) ہے۔ بقا یعنی زندہ رہنے کی خواہش اور ارادہ ایک طرز زندگی ہے جس کا صرف ایک نکاتی مقصد باقی رہنا، زندگی برائے زندگی اور طاقت برائے طاقت ہے۔
4 جولائی کو امریکہ میں یوم آزادی منایا جاتا ہے۔ یہ دن بظاہر انٹی امپیرل ازم اور انٹی برطانیہ ہے۔ یہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے لوگوں کی تقدیر اور آزادی کی علامات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ دن درحقیقت یوم آزادی کے بجائے غلامی اوراسیری کا دن ہے۔ ۔ ۔ پروفیسر ڈوگن (ترجمہ:وحید مراد)
بائیڈن کی فتح اور "عظیم ری سیٹ" کے لئے واشنگٹن کے "نئے" متعین کردہ کورس کو واضح طور پر سمجھنے کےلئے ہمیں لبرل آئیڈیالوجی کی مکمل تاریخ کو اسکی بنیادوں سے کھنگالنا ہوگا۔ تب ہی ہم صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے کے قابل ہونگے۔ نہ ہی بائیڈن کی فتح محض اتفاقیہ ہے، اور نہ ہی گلوبلسٹوں کے جوابی حملے کا اعلان محض ان کے ناکام منصوبےکی تکلیف کے باعث ہے۔ بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ بائیڈن اور اس کے پیچھے کی قوتیں قرون وسطی میں شروع ہونے والے ایک تاریخی عمل کے اختتام کی علامت ہیں، قرون وسطیٰ سے شروع ہونے والے اس عمل کے باعث سرمایہ دارانہ معاشرے کا ظہور ہوا اور یہ جدیدیت میں اب اپنی پختگی کو پہنچا چکا ہے جو آج اپنے آخری مرحلے میں ہے۔
لبرل (= سرمایہ دارانہ) نظام کی جڑیں کائنات کے بارے میں علمی تنازعہ سے جڑی ہیں۔ اس تنازعہ نے کیتھولک مذہبی ماہرین کو دو حصوں میں تقسیم کردیا: کچھ نے اشتراکیت (ذات، نسل، عالمگیریا) کے وجود کو تسلیم کیا، جبکہ دوسروں نے صرف کچھ ٹھوس حقائق - انفرادی چیزوں پر یقین کیا، اور ان کے عمومی ناموں کی درجہ بندی کے خالص بیرونی روایتی نظاموں کی ترجمانی کی، جس کی نمائندگی صرف " خالی آواز " تھی۔ وہ لوگ جو عمومی ذات کے وجود کے قائل تھے، وہ افلاطون اور ارسطو کی کلاسیکل روایت پر راغب ہوگئے۔ وہ "حقیقت پسند" کہلائے، یعنی "عالمگیرت کی حقیقت" کو پہچاننے والے۔ "حقیقت پسندوں" کا سب سے نمایاں نمائندہ تھامس ایکناس تھا اور عمومی طور پر یہ ڈومینیکن راہبوں کی ہی روایت تھی۔
باقی یورپی ممالک کی نسبتاً روس پر وبائی مرض کا حملہ قدرے کم ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ بہت اچھے تھے (یا ہیں)۔ دوسرے ممالک کی نسبت روس میں صورتحال ڈرامائی نہیں۔ مارچ کے آخرمیں ، روس نے کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کرنا شروع کردیں۔ اس کے بعد پوتن نے نرمی سے شہریوں کو مارچ کے آخر میں ایک ہفتے کے لئے گھر میں رہنے کی تجویز دی بغیر یہ بتائے کہ اس رضاکارانہ اقدام کی اصل حیثیت کیا ہے۔ وبائی مرض کی شدت کا احساس کرتے ہوۓ بعد میں مکمل لاک ڈاؤن کیا گیا۔ ابتدا میں حکومت کے اقدامات قدرے الجھن میں نظر آئے: ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پوتن اور دوسرے زمہ داران، کورونا وائرس کے حقیقی خطرے سے پوری طرح واقف نہیں تھے ، شاید شبہ تھا کہ اس وبا کے پیچھے مغربی ممالک کا کوئی(سیاسی یا معاشی) پوشیدہ ایجنڈا ہے۔ بہر حال ، ہچکچاہٹ سے ، حکومت نے چیلنج قبول کیا اور اب زیادہ تر علاقے مکمل طور پر لاک ڈاؤن میں ہیں۔
آج ہم نہ صرف عالمی طاقت کے توازن میں جغرافیائی سیاست کی ( یک قطبیت سے کثیر قطبیت کی طرف) منتقلی بلکہ گہری نظریاتی تبدیلیوں کی بھی معاونت کررہے ہیں۔ واضح طور پر مشرق وسطیٰ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف امریکا، اسرائیل اور یورپی یونین کا ابھی تک کتنا اہم کردار ہے۔ اور دوسری طرف چین اور روس کی خطے میں موجودگی کس طریقے سے حالات میں تبدیلیاں لارہی ہے۔ اور کیسے مختلف اسلامی ممالک اور اسلام میں مختلف رجحانات ایک دوسرے کے حلیف یا حریف ہیں۔ پس اس لیے جیو پالیٹکس کے پیچھے نظریاتی اور بسااوقات مزہبی سمتیں کار فرما ہیں اور ہم مزید قومی ریاستوں کی مقابلہ بازی یا پھر مشرق و مغرب کی نظریاتی مخالفت سے مسائل کو کم نہیں کرسکتے۔ ہمیں نئے حربوں کی ضرورت ہے جو ہمیں جغرافیائی سیاست کے نقشے پر نظریاتی بنیادوں اور منصبوں کا مکمل ادارک فراہم کریں۔ ہمیں بلاشبہ دنیاوی خلا کی نئی قسم کی نقشہ جاتی حد بندی کی ضرورت ہے۔ بالخصوص مشرق وسطیٰ میں جہاں اہم رجحانات کی اب ازسرنو تعریف کی گئی ہے۔
لاطینی امریکہ اور خصوصی طور پر میکسیکو کے اندر ٹوئٹر کے پاس نیولبرل سیاسی ایجنڈا کو نافذ کرنے کا لائسنس ہے اور مکسیکو کے حکام اس سے مکمل طور پر بے خبر ہیں، حقیقی طور پر اب یہی لگتا ہے کہ امریکہ جیسے لاطینی امریکہ پر اپنا سائبرنیٹک حق سمجھتا ہے، یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مکسیکو کے سابق صدر رفایل کوریا کا فیس بک اکاؤنٹ بھی بند کردیا گیا تھا. امریکہ کے لاطینی امریکہ کے ساتھ یہ رویہ اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ کیا لاطینی امریکہ والے امریکہ کے سائبر نیٹک نیومونروازم کے غلام ہیں؟ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ صنعتی انقلاب (تیسرا اور چوتھا انقلاب جہاں انٹرنیٹ کھڑا ہے) نے طاقتوں کے نظم و نسق کو پریشان کر دیا ہے۔ ایک مخصوص انداز میں صنعتی انقلاب نے انٹرنیٹ کی بے انتہا تیزی کی صوابدید کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ مشہور 'کونڈراٹیو کے گھن چکر ( Kondratiev cycles )کے مطابق پچاس سال اس کے عروج کے ہیں اور باقی پچاس سال اس کے زوال کے۔ مصنف کے مطابق سائبر کی صنعتی طاقت بھی بالکل جوہری طاقتوں جیسی ہے، کچھ ممالک کے پاس سائبر صنعتی طاقت ہے اور کچھ کے پاس بالکل نہیں۔
اب یہ بھی سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ 9/11 کے بعد امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 36ہزار لوگ جاں بحق ہوئے جلد میں 6000 فوجی بھی شامل ہیں اور ملک کا تقریباً 68 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور تقریبا پانچ لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے۔ جبکہ امریکی فوجیوں کو پاکستان میں رکھنے پر امریکہ کے دس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوئے،اور پاکستان کے ایک فوجی کی سالانہ قیمت 900 ڈالر ہے۔ اور حال ہی میں امریکی ڈرون طیاروں نے افغانستان کے ساتھ منسلک پاکستانی بارڈر پر متعدد مرتبہ پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور ان ڈرون حملوں میں دہشتگردوں کی بجائے قبائلی علاقوں میں رہنے والے عام شہری بڑی تعداد بھی جاں بحق ہوئے۔ تاہم امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے زیر کنٹرول ذرائع ابلاغ کے اداروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی فوج کو فاتح قرار دیا۔ ہمیں شام اور عراق میں داعش کے خلاف امریکہ کی فتح کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات کوبھی یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ دراصل جھوٹ کی ملمع کاری، امریکہ کی جغرافیائی سیاست کے مخالفین اور اس کے عالمی ایجنڈے کی مخالفت کرنے والوں کو بدنام کرنا امریکی اسٹیبلشمنٹ کے غلام میڈیا کا دن دیھاڑے کا کام ہے۔
قطب شمالی کے امور سے متعلق رابطہ کاری کے لئے قائم کی گئی آرکٹک کونسل میں ان دنوں قطب شمالی کے وسائل موضوع گفتگو بن چکے ہیں۔ دنیا کے تین طاقتور ترین ممالک روس چین اور امریکہ نے اقتصادی خوشحالی کے پیش نظر قدرتی وسائل اور تجارتی راستوں کے حصول کے لیے اس پر نظریں جما رکھی ہیں۔ گرین لینڈ جوکہ ڈنمارک کی بادشاہت کا حصہ ہے ان دنوں دوبارہ توجہ حاصل کر چکا ہے کیونکہ امریکہ اس جزیرے میں بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری کرکے خطے میں اپنی برتری کو تقویت دینے کا خواہاں ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے 16 اپریل کو ایک آرٹیکل لکھا جس کا عنوان تھا " سٹیو بینن جیسے انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست روسی نظریات سے کیوں متاثر ہیں اور کس طور سے اس نے اپنے مقصد کے لیے قرون وسطیٰ کے تصورات سے تاریخ کو مسخ کیا ہے" آرٹیکل کے مصنف برینڈن ڈبلیو ہاک اسے مکمل طور پر میرے نام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے افکار نے امریکی قدامت پرستوں اور انتہائی دائیں بازو کے حلقے بشمول معتبر نظریاتی منحرف سٹیو بینن اور خود ٹرمپ کو کیسے متاثر کیا۔
کیونکہ میرے ہی حقیقی خیالات کو مکمل طور پر مسخ کرکے کے انتہائی نچلے درجے کی بحث اور بڑے پیمانے پر جھوٹ اور گالم گلوچ کی گئی۔ میں نے پہلے سوچا کہ اس حملے پر خاموشی اختیار کی جائے جیسا کہ میں عام طور پر اس طرح کے معاملات پر خاموش ہو جایا کرتا ہوں. یہ ایک خالص لبرل مطلق العنانیت کا پراپیگنڈہ ہے جو حقیقت سے دور ایک خیالاتی جنگ ہے۔