El código ruso

Rusia lanzó la operación militar especial en Ucrania con la intención de defender su soberanía. Mientras tanto, Occidente ha decidido usar a la nación ucraniana – sí es que puede ser llamada así – como un proxy para detener a los rusos. El predominio militar, económico y formal de Occidente es algo obvio. Sin embargo, Occidente no es solo una estructura política, económica y militar, sino una civilización que tiene un código de programación particular. Este código es el que se convierte posteriormente en armas militares o sistemas económicos, políticos, culturales, educativos, comunicativos, etc… El problema actual subyace en que Rusia debe luchar en contra de este código que da vida a Occidente.

Soçi görüşmesinin perde arkasını anlattı

Soçi’de yapılan son görüşmeye dair arka plan bilgilerine vakıf olduğunu aktaran Dugin “O gün Erdoğan ve Putin dünya dengeleri açısından hangi tarafta yer alacaklarını konuştu ve aldıkları kararı paylaştı. Kürt haritasından Kırım’a, Afganistan’dan Libya’ya, Kafkaslardan Suriye’ye tüm alanlara ilişkin hayati konularda kendi kırmızı çizgilerini çizdi. Başta İdlib olmak üzere birçok konuda uzlaştıklarını söyleyebilirim. Ancak bu tarihî buluşmada konuşulanların önemli bir kısmı sır olarak kalacak. Biz sadece sahada yansımalarını göreceğiz’’ dedi.
Putin’in dış politikasını belirleyen isimlerden Aleksandr Dugin, ABD’nin Suriye’den çekileceğini ve bunun kademeli olarak gerçekleşeceğini anlattı. Amerika’nın çekilmesi ile tüm meselelerin hallolmayacağı görüşünü dile getiren Dugin “ABD çekilse bile kriz üretmeye devam edecek. Bu noktada tek belirleyici unsur Rusya, Türkiye ve İran’ın tutumu olacak” diye konuştu.

بڑی عالمی ترتیب نو کے خلاف عظیم بیداری کا منشور

بائیڈن کی فتح اور "عظیم ری سیٹ" کے لئے واشنگٹن کے "نئے" متعین کردہ کورس کو واضح طور پر سمجھنے کےلئے ہمیں لبرل آئیڈیالوجی کی مکمل تاریخ کو اسکی بنیادوں سے کھنگالنا ہوگا۔ تب ہی ہم صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے کے قابل ہونگے۔ نہ ہی بائیڈن کی فتح محض اتفاقیہ ہے، اور نہ ہی گلوبلسٹوں کے جوابی حملے کا اعلان محض ان کے ناکام منصوبےکی تکلیف کے باعث ہے۔ بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ بائیڈن اور اس کے پیچھے کی قوتیں قرون وسطی میں شروع ہونے والے ایک تاریخی عمل کے اختتام کی علامت ہیں، قرون وسطیٰ سے شروع ہونے والے اس عمل کے باعث سرمایہ دارانہ معاشرے کا ظہور ہوا اور یہ جدیدیت میں اب اپنی پختگی کو پہنچا چکا ہے جو آج اپنے آخری مرحلے میں ہے۔

لبرل (= سرمایہ دارانہ) نظام کی جڑیں کائنات کے بارے میں علمی تنازعہ سے جڑی ہیں۔ اس تنازعہ نے کیتھولک مذہبی ماہرین کو دو حصوں میں تقسیم کردیا: کچھ نے اشتراکیت (ذات، نسل، عالمگیریا) کے وجود کو تسلیم کیا، جبکہ دوسروں نے صرف کچھ ٹھوس حقائق - انفرادی چیزوں پر یقین کیا، اور ان کے عمومی ناموں کی درجہ بندی کے خالص بیرونی روایتی نظاموں کی ترجمانی کی، جس کی نمائندگی صرف " خالی آواز " تھی۔ وہ لوگ جو عمومی ذات کے وجود کے قائل تھے، وہ افلاطون اور ارسطو کی کلاسیکل روایت پر راغب ہوگئے۔ وہ "حقیقت پسند" کہلائے، یعنی "عالمگیرت کی حقیقت" کو پہچاننے والے۔ "حقیقت پسندوں" کا سب سے نمایاں نمائندہ تھامس ایکناس تھا اور عمومی طور پر یہ ڈومینیکن راہبوں کی ہی روایت تھی۔

ہم ہنگامہ خیز دور میں داخل ہورہے ہیں۔

باقی یورپی ممالک کی نسبتاً روس پر وبائی مرض کا حملہ قدرے کم ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ بہت اچھے تھے (یا ہیں)۔ دوسرے ممالک کی نسبت روس میں صورتحال ڈرامائی نہیں۔ مارچ کے آخرمیں ، روس نے کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کرنا شروع کردیں۔ اس کے بعد پوتن نے نرمی سے شہریوں کو مارچ کے آخر میں ایک ہفتے کے لئے گھر میں رہنے کی تجویز دی بغیر یہ بتائے کہ اس رضاکارانہ اقدام کی اصل حیثیت کیا ہے۔ وبائی مرض کی شدت کا احساس کرتے ہوۓ بعد میں مکمل لاک ڈاؤن کیا گیا۔ ابتدا میں حکومت کے اقدامات قدرے الجھن میں نظر آئے: ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پوتن اور دوسرے زمہ داران، کورونا وائرس کے حقیقی خطرے سے پوری طرح واقف نہیں تھے ، شاید شبہ تھا کہ اس وبا کے پیچھے مغربی ممالک کا کوئی(سیاسی یا معاشی) پوشیدہ ایجنڈا ہے۔ بہر حال ، ہچکچاہٹ سے ، حکومت نے چیلنج قبول کیا اور اب زیادہ تر علاقے مکمل طور پر لاک ڈاؤن میں ہیں۔

 

ہمیں نئے سیاسی نظریے (چوتھے سیاسی نظریے)کی ضرورت کیوں ہے؟

آج ہم نہ صرف عالمی طاقت کے توازن میں جغرافیائی سیاست کی ( یک قطبیت سے کثیر قطبیت کی طرف) منتقلی بلکہ گہری نظریاتی تبدیلیوں کی بھی معاونت کررہے ہیں۔ واضح طور پر مشرق وسطیٰ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف امریکا،  اسرائیل اور یورپی یونین کا ابھی تک کتنا اہم کردار ہے۔  اور دوسری طرف چین اور روس کی خطے میں موجودگی کس طریقے سے حالات میں تبدیلیاں لارہی ہے۔ اور کیسے مختلف اسلامی ممالک اور اسلام میں مختلف رجحانات ایک دوسرے کے حلیف یا حریف ہیں۔ پس اس لیے جیو پالیٹکس کے پیچھے نظریاتی اور بسااوقات مزہبی سمتیں کار فرما ہیں اور ہم مزید قومی ریاستوں کی مقابلہ بازی یا پھر مشرق و مغرب کی  نظریاتی مخالفت سے مسائل کو کم نہیں کرسکتے۔ ہمیں نئے حربوں کی ضرورت ہے جو ہمیں جغرافیائی سیاست کے نقشے پر نظریاتی بنیادوں اور منصبوں کا مکمل ادارک فراہم کریں۔ ہمیں بلاشبہ دنیاوی خلا کی نئی قسم کی نقشہ جاتی حد بندی کی ضرورت ہے۔ بالخصوص مشرق وسطیٰ میں جہاں اہم رجحانات کی اب ازسرنو تعریف کی گئی ہے۔

انٹرنیٹ کی جغرافیائی سیاست: امریکی تسلط کی حاکمیت

لاطینی امریکہ اور خصوصی طور پر میکسیکو کے اندر ٹوئٹر کے پاس نیولبرل سیاسی ایجنڈا کو نافذ کرنے کا لائسنس ہے اور مکسیکو کے حکام اس سے مکمل طور پر بے خبر ہیں، حقیقی طور پر اب یہی لگتا ہے کہ امریکہ جیسے لاطینی امریکہ پر اپنا سائبرنیٹک حق سمجھتا ہے، یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مکسیکو کے سابق صدر رفایل کوریا کا فیس بک اکاؤنٹ بھی بند کردیا گیا تھا. امریکہ کے لاطینی امریکہ کے ساتھ یہ رویہ اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ  کیا لاطینی امریکہ والے امریکہ کے سائبر نیٹک نیومونروازم کے غلام ہیں؟ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ صنعتی انقلاب (تیسرا اور چوتھا انقلاب جہاں انٹرنیٹ کھڑا ہے) نے طاقتوں کے نظم و نسق کو پریشان کر دیا ہے۔ ایک مخصوص انداز میں صنعتی انقلاب نے انٹرنیٹ کی بے انتہا تیزی کی صوابدید کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔   مشہور 'کونڈراٹیو کے گھن چکر ( Kondratiev cycles  )کے مطابق پچاس سال اس کے عروج کے ہیں اور باقی پچاس سال اس کے زوال کے۔ مصنف کے مطابق سائبر کی صنعتی طاقت بھی بالکل جوہری طاقتوں جیسی ہے، کچھ ممالک کے پاس سائبر صنعتی طاقت ہے اور کچھ کے پاس بالکل نہیں۔

بڑے جھوٹ کا دن

اب یہ بھی سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ 9/11 کے بعد امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 36ہزار لوگ جاں بحق ہوئے جلد میں 6000 فوجی بھی شامل ہیں اور ملک کا تقریباً 68 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور تقریبا پانچ لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے۔ جبکہ امریکی فوجیوں کو پاکستان میں رکھنے پر امریکہ کے دس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوئے،اور پاکستان کے ایک فوجی کی سالانہ قیمت 900 ڈالر ہے۔ اور حال ہی میں امریکی ڈرون طیاروں نے افغانستان کے ساتھ منسلک پاکستانی بارڈر پر متعدد مرتبہ پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور ان ڈرون حملوں میں دہشتگردوں کی بجائے قبائلی علاقوں میں رہنے والے عام شہری بڑی تعداد بھی جاں بحق ہوئے۔ تاہم امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے زیر کنٹرول ذرائع ابلاغ کے اداروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی فوج کو فاتح قرار دیا۔  ہمیں شام اور عراق میں داعش کے خلاف امریکہ کی فتح کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات کوبھی یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ دراصل جھوٹ کی ملمع کاری، امریکہ کی جغرافیائی سیاست کے مخالفین اور اس کے عالمی ایجنڈے کی مخالفت کرنے والوں کو بدنام کرنا امریکی اسٹیبلشمنٹ کے غلام میڈیا کا دن دیھاڑے کا کام ہے۔

قطب شمالی کے وسائل: گرین لینڈ میں امریکی عسکریت پسندی

قطب شمالی کے امور سے متعلق رابطہ کاری کے لئے قائم کی گئی آرکٹک کونسل میں ان دنوں قطب شمالی کے وسائل موضوع گفتگو بن چکے ہیں۔ دنیا کے تین طاقتور ترین ممالک روس چین اور امریکہ نے اقتصادی خوشحالی کے پیش نظر قدرتی وسائل اور تجارتی راستوں کے حصول کے لیے اس پر نظریں جما رکھی ہیں۔ گرین لینڈ جوکہ ڈنمارک کی بادشاہت کا حصہ ہے ان دنوں دوبارہ توجہ حاصل کر چکا ہے کیونکہ امریکہ اس جزیرے میں بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری کرکے خطے میں اپنی برتری کو تقویت دینے کا خواہاں ہے۔

عظیم دور کی واپسی

واشنگٹن پوسٹ نے 16 اپریل کو ایک آرٹیکل لکھا جس کا عنوان تھا " سٹیو بینن جیسے انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست روسی نظریات سے کیوں متاثر ہیں اور کس طور سے اس نے اپنے مقصد کے لیے قرون وسطیٰ کے تصورات سے تاریخ کو مسخ کیا ہے" آرٹیکل کے مصنف برینڈن ڈبلیو ہاک اسے مکمل طور پر میرے نام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے افکار نے امریکی قدامت پرستوں اور انتہائی دائیں بازو کے حلقے بشمول معتبر نظریاتی منحرف سٹیو بینن اور خود ٹرمپ کو کیسے متاثر کیا۔

کیونکہ میرے ہی حقیقی خیالات کو مکمل طور پر مسخ کرکے کے انتہائی نچلے درجے کی بحث اور بڑے پیمانے پر جھوٹ اور گالم گلوچ کی گئی۔ میں نے پہلے سوچا کہ اس حملے پر خاموشی اختیار کی جائے جیسا کہ میں عام طور پر اس طرح کے معاملات پر خاموش ہو جایا کرتا ہوں. یہ ایک خالص لبرل مطلق العنانیت کا پراپیگنڈہ ہے جو حقیقت سے دور ایک خیالاتی جنگ ہے۔ 

COUNTER-HEGEMONY IN THE THEORY OF THE MULTIPOLAR WORLD

Although the concept of hegemony in Critical Theory is based on Antonio Gramsci’s theory, it is necessary to distinguish this concept’s position on Gramscianism and neo-Gramscianism from how it is understood in the realist and neo-realist schools of IR.

The classical realists use the term “hegemony” in a relative sense and understand it as the “actual and substantial superiority of the potential power of any state over the potential of another one, often neighboring countries.” Hegemony might be understood as a regional phenomenon, as the determination of whether one or another political entity is considered a “hegemon” depends on scale. Thucydides introduced the term itself when he spoke of Athens and Sparta as the hegemons of the Peloponnesian War, and classical realism employs this term in the same way to this day. Such an understanding of hegemony can be described as “strategic” or “relative.”

In neo-realism, “hegemony” is understood in a global (structural) context. The main difference from classical realism lies in that “hegemony” cannot be regarded as a regional phenomenon. It is always a global one. The neorealism of K. Waltz, for example, insists that the balance of two hegemons (in a bipolar world) is the optimal structure of power balance on a world scale[ii]. R. Gilpin believes that hegemony can be combined only with unipolarity, i.e., it is possible for only a single hegemon to exist, this function today being played by the USA.

In both cases, the realists comprehend hegemony as a means of potential correlation between the potentials of different state powers. 

Gramsci's understanding of hegemony is completely different and finds itself in a completely opposite theoretical field. To avoid the misuse of this term in IR, and especially in the TMW, it is necessary to pay attention to Gramsci’s political theory, the context of which is regarded as a major priority in Critical Theory and TMW. Moreover, such an analysis will allows us to more clearly see the conceptual gap between Critical Theory and TMW.

Inleiding tot de idee Marc. Eemans

Toen ik aanvaardde een essay te wijden aan het werk en het denken van de schilder, dichter en kunsthistoricus Marc. Eemans, heb ik me afgevraagd of het in mijn geval geoorloofd was te spreken van een zekere continuïteit in zijn geestelijke ontwikkeling. Langzaam maar zeker kwamen elementen en argumenten aan het licht om mijn overtuiging te staven dat die vraag positief macht beantwoord worden. Aldus is deze geschiedenis van de intellectuele en creatieve levensweg van Marc. Eemans ontstaan. Daarbij werd de klemtoon vooral op zijn denken en op zijn poëtisch oeuvre gelegd, vermits het illustratiemateriaal dat deze uitgave verrijkt, als een soort picturaal complement van mijn stelling kan beschouwd worden. Overigens bleven om voor de hand liggende redenen, biografische en andere gegevens buiten beschouwing.

Hopelijk vergeeft de lezer het me dat ik met hem wegen ga verkennen, die men normaliter in essays van het onderhavige genre links laat liggen. Maar op de eerste plaats is het zo dat ik geen kunsthistoricus ben en het derhalve als een punt van elementaire intellectuele eerlijkheid beschouw me onbevoegd te verklaren om een verantwoord waardeoordeel over het schilderkunstig werk van Marc. Eemans uit te spreken. En voorts is er het oude adagium « de gustibus et coloribus non disputandum », dat in de loop der tijden zijn geldigheid heeft behouden. Waarom de lezer dan ook willen beïnvloeden met een onvermijdelijk subjectieve analyse van de boodschap die de schilderijen van Marc. Eemans brengen?

21 Facts About America's Decaying Infrastructure That Will Blow Your Mind

 

You can tell a lot about a nation by the condition of the infrastructure. So what does our infrastructure say about us? It says that we are in a very advanced state of decay. At this point, much of America is being held together with spit, duct tape and prayers. Our roads are crumbling and thousands of our bridges look like they could collapse at any moment. Our power grid is ancient, and over a trillion gallons of untreated sewage is leaking from our aging sewer systems each year. 

غیر واضح

صفحات