بائیڈن کی فتح اور "عظیم ری سیٹ" کے لئے واشنگٹن کے "نئے" متعین کردہ کورس کو واضح طور پر سمجھنے کےلئے ہمیں لبرل آئیڈیالوجی کی مکمل تاریخ کو اسکی بنیادوں سے کھنگالنا ہوگا۔ تب ہی ہم صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے کے قابل ہونگے۔ نہ ہی بائیڈن کی فتح محض اتفاقیہ ہے، اور نہ ہی گلوبلسٹوں کے جوابی حملے کا اعلان محض ان کے ناکام منصوبےکی تکلیف کے باعث ہے۔ بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ بائیڈن اور اس کے پیچھے کی قوتیں قرون وسطی میں شروع ہونے والے ایک تاریخی عمل کے اختتام کی علامت ہیں، قرون وسطیٰ سے شروع ہونے والے اس عمل کے باعث سرمایہ دارانہ معاشرے کا ظہور ہوا اور یہ جدیدیت میں اب اپنی پختگی کو پہنچا چکا ہے جو آج اپنے آخری مرحلے میں ہے۔
لبرل (= سرمایہ دارانہ) نظام کی جڑیں کائنات کے بارے میں علمی تنازعہ سے جڑی ہیں۔ اس تنازعہ نے کیتھولک مذہبی ماہرین کو دو حصوں میں تقسیم کردیا: کچھ نے اشتراکیت (ذات، نسل، عالمگیریا) کے وجود کو تسلیم کیا، جبکہ دوسروں نے صرف کچھ ٹھوس حقائق - انفرادی چیزوں پر یقین کیا، اور ان کے عمومی ناموں کی درجہ بندی کے خالص بیرونی روایتی نظاموں کی ترجمانی کی، جس کی نمائندگی صرف " خالی آواز " تھی۔ وہ لوگ جو عمومی ذات کے وجود کے قائل تھے، وہ افلاطون اور ارسطو کی کلاسیکل روایت پر راغب ہوگئے۔ وہ "حقیقت پسند" کہلائے، یعنی "عالمگیرت کی حقیقت" کو پہچاننے والے۔ "حقیقت پسندوں" کا سب سے نمایاں نمائندہ تھامس ایکناس تھا اور عمومی طور پر یہ ڈومینیکن راہبوں کی ہی روایت تھی۔
آج ہم نہ صرف عالمی طاقت کے توازن میں جغرافیائی سیاست کی ( یک قطبیت سے کثیر قطبیت کی طرف) منتقلی بلکہ گہری نظریاتی تبدیلیوں کی بھی معاونت کررہے ہیں۔ واضح طور پر مشرق وسطیٰ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف امریکا، اسرائیل اور یورپی یونین کا ابھی تک کتنا اہم کردار ہے۔ اور دوسری طرف چین اور روس کی خطے میں موجودگی کس طریقے سے حالات میں تبدیلیاں لارہی ہے۔ اور کیسے مختلف اسلامی ممالک اور اسلام میں مختلف رجحانات ایک دوسرے کے حلیف یا حریف ہیں۔ پس اس لیے جیو پالیٹکس کے پیچھے نظریاتی اور بسااوقات مزہبی سمتیں کار فرما ہیں اور ہم مزید قومی ریاستوں کی مقابلہ بازی یا پھر مشرق و مغرب کی نظریاتی مخالفت سے مسائل کو کم نہیں کرسکتے۔ ہمیں نئے حربوں کی ضرورت ہے جو ہمیں جغرافیائی سیاست کے نقشے پر نظریاتی بنیادوں اور منصبوں کا مکمل ادارک فراہم کریں۔ ہمیں بلاشبہ دنیاوی خلا کی نئی قسم کی نقشہ جاتی حد بندی کی ضرورت ہے۔ بالخصوص مشرق وسطیٰ میں جہاں اہم رجحانات کی اب ازسرنو تعریف کی گئی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے 16 اپریل کو ایک آرٹیکل لکھا جس کا عنوان تھا " سٹیو بینن جیسے انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست روسی نظریات سے کیوں متاثر ہیں اور کس طور سے اس نے اپنے مقصد کے لیے قرون وسطیٰ کے تصورات سے تاریخ کو مسخ کیا ہے" آرٹیکل کے مصنف برینڈن ڈبلیو ہاک اسے مکمل طور پر میرے نام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے افکار نے امریکی قدامت پرستوں اور انتہائی دائیں بازو کے حلقے بشمول معتبر نظریاتی منحرف سٹیو بینن اور خود ٹرمپ کو کیسے متاثر کیا۔
کیونکہ میرے ہی حقیقی خیالات کو مکمل طور پر مسخ کرکے کے انتہائی نچلے درجے کی بحث اور بڑے پیمانے پر جھوٹ اور گالم گلوچ کی گئی۔ میں نے پہلے سوچا کہ اس حملے پر خاموشی اختیار کی جائے جیسا کہ میں عام طور پر اس طرح کے معاملات پر خاموش ہو جایا کرتا ہوں. یہ ایک خالص لبرل مطلق العنانیت کا پراپیگنڈہ ہے جو حقیقت سے دور ایک خیالاتی جنگ ہے۔
Although the concept of hegemony in Critical Theory is based on Antonio Gramsci’s theory, it is necessary to distinguish this concept’s position on Gramscianism and neo-Gramscianism from how it is understood in the realist and neo-realist schools of IR.
The classical realists use the term “hegemony” in a relative sense and understand it as the “actual and substantial superiority of the potential power of any state over the potential of another one, often neighboring countries.” Hegemony might be understood as a regional phenomenon, as the determination of whether one or another political entity is considered a “hegemon” depends on scale. Thucydides introduced the term itself when he spoke of Athens and Sparta as the hegemons of the Peloponnesian War, and classical realism employs this term in the same way to this day. Such an understanding of hegemony can be described as “strategic” or “relative.”
In neo-realism, “hegemony” is understood in a global (structural) context. The main difference from classical realism lies in that “hegemony” cannot be regarded as a regional phenomenon. It is always a global one. The neorealism of K. Waltz, for example, insists that the balance of two hegemons (in a bipolar world) is the optimal structure of power balance on a world scale[ii]. R. Gilpin believes that hegemony can be combined only with unipolarity, i.e., it is possible for only a single hegemon to exist, this function today being played by the USA.
In both cases, the realists comprehend hegemony as a means of potential correlation between the potentials of different state powers.
Gramsci's understanding of hegemony is completely different and finds itself in a completely opposite theoretical field. To avoid the misuse of this term in IR, and especially in the TMW, it is necessary to pay attention to Gramsci’s political theory, the context of which is regarded as a major priority in Critical Theory and TMW. Moreover, such an analysis will allows us to more clearly see the conceptual gap between Critical Theory and TMW.